پینتالیس سالہ وزیراں بی بی ایک فارم میں کھڑی ہوا میں مکئی کے دانے بکھیرتی ہے۔ جب مرغیاں اس کے گرد جمع ہو جاتی ہیں تو وہ ایک آہ بھرتی ہے لیکن آخرکار اس کے جھریوں بھرے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ اس کی آہ اس کی زندگی کے مشکل سفر کی ذرا سی بھی عکاسی نہیں کرتی لیکن اس کی مسکراہٹ مستقبل پر اس کے اعتماد کا ثبوت پیش کرتی ہے۔
پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے شجاع آباد سے تعلق رکھنے والی مضبوط قوت ارادی کی مالک خاتون وزیراں بی بی کا دایاں ہاتھ بچپن میں آگ کے ایک حادثے میں ضائع ہوگیا تھا۔ بچپن ہی سے وزیراں بی بی نے غربت میں زندگی گزاری اور دوسروں کی زمینوں پر کاشتکاری کرنے والے ایک شخص کے ساتھ شادی کے بعد بھی اس کے حالات نہیں بدلے۔ اس کے شوہر کے کام میں بہتری کی گںجائش محدود تھی اور آمدنی اتنی تھی جو صرف روٹی اور دودھ پر ہی خرچ ہو جاتی تھی.
چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کے ساتھ روزمرہ اخراجات پورے کرنا ان کے لئے ہمیشہ مشکل تھا۔ مالی مشکلات سے تانگ وزیراں بی بی نے ایک دن اپنی برادری کے لوگوں سے مشورے کے بعد خوشحالی بینک سے مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیراں بی بی کہتی ہیں کہمیرے اس فیصلے کی وجہ یہ تھی کہ میں نہیں چاہتی تھی کہ میرے بچوں کا مستقبل بھی میرے جیسا ہو۔ ایک ماں اپنی ساری زندگی جدوجہد کرتے ہوئے گزار سکتی ہے لیکن وہ کبھی نہیں چاہتی کہ اس کے بچے بھی اس کی طرح مشکلات سے گزریں۔
اس نے 8,500 روپے کے پہلے قرضے سے ایک بکری خریدی اور اس کا دودھ فروخت کرنے لگی۔ دودھ کی فروخت سے یکایک آمدنی میں اضافے سے اس کی زندگی میں رفتہ رفتہ آسانیاں پیدا ہونے لگیں۔ اس نے جلد ہی اتنی بچت کر لی کہ ایک گائے اور بھینس خرید لی جس سے وہ اپنے خاندان کی گزراوقات کے لئے اچھی خاصی رقم کمانے لگی.
کئی ماہ تک بچت کرنے کے بعد وزیراں بی بی نے ایک پولٹری فارم کھولا جس سے اسے ان دنوں میں اپنی آمدنی برقرار رکھنے میں مدد ملی جب مویشی دودھ دینا بند کر دیتے ہیں. ہر ماہ 10,000 سے 12,000 روپے کی بچت کرتے ہوئے وزیراں بی بی پُرامید ہے کہ وہ کاروبار میں دوبارہ سرمایہ کاری کرے گی اور اپنا تجربہ بروئے کار لاتے ہوئے اپنے کاروبار کو وسعت دے گی۔ ایک کاروباری خاتون بننے کے بعد اب وزیراں بی بی وقت پرقرض ادا کرنے کی اچھی روایت برقرار رکھنے پر یقین رکھتی ہے تاکہ وہ مستقبل میں اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لئے مالی وسائل حاصل کرسکے۔
اگرچہ اس کا معیار زندگی بہتر ہوا ہے مگر ابھی بھی زندگی کی مشکلات اور چیلنجز جاری ہیں لیکن ان کا سامنا کرنے کے لیے اس کی قوتِ ارادی ہر روز تازہ ہوتی ہے۔ اس کے اردگرد لوگ اس کا مذاق اڑاتے رہے، ایک عورت کے گھر سے باہر نکل کر کام کرنے کو برا سمجھا جانے کے باعث اسے سماجی دباؤ کا بھی سامنا رہا اور اس کے خاندان کی بھی تضحیک کی گئی۔ اس کے باوجود وزیراں بی بی اپنے کام سے مخلص رہی اور اس نے کبھی بھی اپنی معذوری کو اپنے کاروبار میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ اپنے کام، بچوں اور گھر میں خوبصورتی سے توازن قائم رکھتے ہوئے وزیراں بی بی نے اپنے خاندان کو غربت سے نکال لیا ہے۔ اس تجربے سے نہ صرف ان کی زندگی بدلی ہے بلکہ وزیراں بی بی اور اس کے بچوں کا اعتماد بھی بڑھا ہے۔ آج، وہ خوشی، کامیابی اور بہتر مستقبل کے لئے پرامید ہیں.