Submitted by گمنام (غیر مصدقہ) on Tue, 09/14/2021 - 15:22
WONDER WOMEN OF KHUSHHALI
خوشحالی کی جرأت مند خواتین ۔ شاہین منور

شاہین منور کا موبائل فون آدھی رات کو بجا، فون اسکرین پر اس کے شوہر کا نمبر تھا۔ کال اٹینڈ کرتے ہی شاہین نے وہ خبر سنی جس سے اسکی دنیا ہی بکھر گئی۔ ایک اجنبی آواز اسے آ کر اپنے شوہر کی لاش شناخت کرنے کے لئے کہہ رہی تھی۔ شاہین کا شوہر اُس شام جوہر موڑ کراچی میں اپنے گھر سے بیٹے کے لئے دوائی لانے گیا تھا۔ واپسی پر وہ ایک اندھی گولی کا نشانہ بن گیا جو کسی اور پر چلائی گئی تھی۔ شاہین نے اس نئی حقیقت کے ساتھ فون بند کر دیا کہ اب وہ ایک بیوہ اور اس کے پانچ بچے یتیم ہیں.

اپنے شوہر کے قتل کے بعد شاہین کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیسے اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کرے گی- اپنے شوہر کی وفات سے پہلے اسکول ٹیچر کے طور پر کام کرنے کے باوجود ان کا خاندان میاں بیوی کی مجموعی آمدنی پر گزارا کرتا تھا۔ اب شاہین اکیلے پورے خاندان کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار نہیں تھی لیکن اس کے پاس کوئی اور چارہ بھی نہ تھا۔

جس اسکول میں شاہین کام کرتی تھی اس نے اس کی مدد کی اور اسے اسکول میں داخلوں کی نگرانی کے نئے کام پر ترقی دے دی گئی۔ اس حیثیت میں شاہین کی ذمہ داری اور تنخواہ دونوں بڑھ گئیں۔  

شاہین کی بصیرت نے بہت سے والدین کو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کی ترغیب دی.ایک بیوہ ہونے کے باوجود اپنے بچوں کی تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کی وجہ سے وہ آس پڑوس کی بہت سی ماؤں کے لئے ایک مثال بن گئی۔ اس کے خلوص اور لگن کی بدولت اسکول میں داخلوں کی تعداد  دوگنا ہوگئی۔ اس کامیابی پر شاہین کو مزید ترقی دی گئی اور وہ اسکول کی پرنسپل بن گئی۔

پھر بھی زندگی کی مشکلات نے شاہین کا پیچھا نہ چھوڑا۔ اسکول کی داخلی انتظامیہ غیر مستحکم ثابت ہوئی اور اسے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا. شاہین نے ایک بار پھر اپنے خاندان کی کفالت کے لئے جدوجہد شروع کر دی لیکن وہ خود پر اعتماد کرنا نہیں بھولی۔

شاہین نے محسوس کیا کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کے لئے غیرمستحکم نوکریوں پر بھروسہ نہیں کر سکتی۔ اسے ایک ذاتی اور مستقل کام کی ضرورت تھی جسے وہ خود تشکیل دے سکے ۔ لہٰذا اس نے اپنا ذاتی اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا۔

یہ کام شروع کرنے کے لئے اپنی تمام جمع پونجی خرچ کرنے اور اپنا چھوٹا سا فلیٹ بیچنے کے باوجود بھی شاہین ایک کاروباری خاتون بننے کے لیے پُرعزم تھی۔

اس نے سندھ کی تپتی دھوپ میں ایک ایک گھر کا دروازہ  کھٹکھٹایا اور والدین کو اپنے بچے اپنے سکول میں داخل کروانے  پر قائل کیا۔ شاہین ان طالب علموں سے بھی ملی جو ذہین تھے لیکن غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جا سکتے تھے۔ شاہین محض ایک کاروباری خاتون نہیں تھی بلکہ وہ بچوں کی تعلیم کی زبردست حامی بھی تھی۔ اس نے کئی بچوں کی تعلیم کو یقینی بنانے کے لئے ان کی داخلہ فیس معاف کی.

اگرچہ اس نے ایک چھوٹا سا سکول کھولنے کے لئے درکار رقم جمع کر لی تھی لیکن سکول کے سامان اورطلباء کے لیے مزید اساتذہ رکھنے کے لئے اسے مزید سرمائے کی ضرورت تھی۔

اسی دوران جب وہ ایسے لوگوں کی تلاش میں تھی جو اسے قرضہ فراہم کر سکیں، خوشحالی مائیکرو فنانس بینک کے ایک نمائندے نے اس کے اسکول کا دورہ کیا اور اسے اسکول کی توسیع کے لیے 150,000 روپے قرض کی پیشکش کی۔ اس قرضے سے شاہین اس قابل ہوگئی کہ طالب علموں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اسکول کو وسعت دے سکے ۔ اس سے شاہین کا ایک کاروباری خاتون کی حیثیت سے خود پر اعتماد مزید مضبوط ہو گیا اور تعلیم سے لگن مزید گہری ہو گئی.

پہلا قرضہ لینے کے چند سال بعد ہی شاہین اپنے اسکول کی زمین خرید لی ہے جس کی قیمت 60 لاکھ روپے ہے اور 300 سے زائد بچوں کے لئے ایک تعلیمی جنت فراہم کر دی ہے. بارہ اساتذہ کو ملازمت دینے کے بعد شاہین روزگار کے مواقعوں میں بھی اضافہ کر رہی ہے اور اپنی برادری کی خواتین کے لیے اس بات کا عملی مظاہرہ کر رہی ہے کہ وہ بھی کاروباری خواتین کے طور پر کامیاب ہو سکتی ہیں۔ 

پاکستان میں جہاں یونیسکو کے مطابق صرف 65 فیصد لڑکیاں پرائمری اسکول اور 29 فیصد لڑکیاں سیکنڈری اسکول جاتی ہیں، شاہین کی داستان ایک اہم کامیابی ہے۔ ایک کاروباری خاتون کے طور پر اکیلے اپنے خاندان کی کفالت کرنے والی شاہین ہر روز اس بات کا مظاہرہ کرتی ہے کہ سندھ کی دیگر خواتین بھی اپنی زندگی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہیں، سخت محنت کر سکتی ہیں، اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکتی ہیں اور اپنے خاندان کو خوشحالی کے راستے پر گامزن کرسکتی ہیں۔