وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی جہاں سختیاں اور مصائب کبھی کم نہیں ہوتے۔ کم عمری میں ہی صوفیہ نے جان لیا تھا کہ اس کے والدین گھر کے بڑھتے ہوئے اخراجات پورے کرنے کے لیے کتنی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
پھر صوفیہ کی شادی ہوگئی اور وہ بیوی کی ذمہ داریاں نبھانے لگی. جلد ہی وہ ماں بن گئی اور شوہر اور تین بچوں کی ذمہ داری کی وجہ سے اپنی ذات یا گھریلو کاموں کے علاوہ کچھ کرنے کے لئے مشکل سے ہی وقت نکال پاتی۔ 2002 میں گھر کے حالات بگڑنا شروع ہوگئے یہاں تک کہ کئی دن گزر جاتے اورصوفیہ کے خاندان کو ایک وقت کا ڈھنگ کا کھانا بھی نصیب نہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کی صوفیہ کے شوہر کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا تھا اور ان کی کوئی بچت بھی نہیں تھی جس پر وہ انحصار کر سکتے. کوئی سہارا اور کسی کی کوئی معاونت نہ ہونے کی وجہ سے صوفیہ کے گھر میں نوبت فاقوں تک پہنچ گئی۔ اپنی مشکلات کو یاد کرتے ہوئے صوفیہ کہتی ہے کہ میری زندگی میں اتنے کٹھن دن کبھی نہیں آئے ۔ وہ کہتی ہے کہ یہی وہ دن تھے جب میں نے اپنے ہنر کو استعمال کرنے، اپنے خاندان کو مایوسی سے نکالنے اور ان کے چہروں پر دوبارہ مسکراہٹ لانے کے لئے سب کچھ کرنے کا فیصلہ کیا۔ صوفیہ کا کہنا ہے کہ اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ اپنے گھر کو شدید غربت کے پنجوں سے آزاد کرائے گی. اپنے خاندان کی مشکلات نے اسے ایک نئی قوت دی جس نے اسے اپنی اور اپنے گھر والوں کے لئے ایک بہتر زندگی حاصل کرنے کے لئے مشکلات کا مقابلہ کرنے اور انتھک کام کرنے کے قابل بنایا۔ اپنے حالات بہتر بنانے کے لئے کام کرنے کے نئے عزم کے ساتھ صوفیہ نے اپنے نٹنگ ہے ہنر کو نکھارنے کا فیصلہ کیا اور جلد ہی اس فن میں مہارت حاصل کر لی۔ ضروری مہارتوں اور ہاتھ سے نتٹنگ کی مختلف تکنیکس کے بنیادی علم سے لیس صوفیہ نے چھوٹے پیمانے پر نٹنگ اور کپڑے سینے کا کام شروع کیا۔ یہ سارے کپڑے ہاتھ سے تیارکیے جاتے تھے جنھیں بعد میں مناسب قیمت پر فروخت کیا جاتا تھا۔
لیکن اس کا کام بہت محنت طلب تھا اور آمدنی بہت قلیل تھی۔ وہ ہر ماہ 4500 روپے کماتی تھی لیکن پانچ افراد کے خاندان کے لئے یہ ناکافی تھے۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنے علاقے کے مقامی تربیت دینے والوں سے مشین سے کپڑے بننے کا ہنر سیکھ لیا۔ مشین سے کپڑے بننے کا آغاز کرنے کے لئے ضروری مہارت حاصل کرنے کے بعد صوفیہ کو معلوم ہوا کہ ہاتھ سےنٹنگ کا کام جاری رکھنا فائدہ مند نہیں ہے۔ اسے زیادہ کام، بہتر استعداد کار اور زیادہ آمدنی کے لیے اپنی مہارت استعمال کرنے کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا تھا.
تاہم صوفیہ کے پاس ہنر تو تھا لیکن مشین خریدنے اور جگہ کے انتظام کے لئے درکار رقم نہیں تھی۔ ٹریننگ سینٹر میں ٹیچرز سے اپنے مسائل کے بارے میں بات کرنے پر اسے مائیکرو فنانس ادارے سے قرض لینے کا مشورہ دیا گیا۔
سال 2005 میں صوفیہ نے خوشحالی مائیکرو فنانس بینک لمیٹڈ سے قرض حاصل جس سے اس نے نٹنگ مشین اور مقامی بازار سے اون خریدی اور سویٹر، سکارف اور بچوں کے سوٹ بنانا شروع دیئے جو اس نے اپنے علاقے میں فروخت کئے۔ اس قدم سے صوفیہ اپنے شوہر کے کاسمیٹکس کے کاروبار کی مالی معاونت کرنے اور اپنی آمدنی 4500 سے 7000 تک لے جانے کے قابل ہو گئی۔ اپنی زندگی تبدیل کرنے کی طاقت کا احساس اور اس سے ملنے والا اعتماد اور مضبوطی صوفیہ کے کاروبار کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئے۔ اب وہ اپنے کاروبار کو بڑھانا چاہتی تھی اور مزید جانفشانی سے کام کرنا چاہتی تھی تاکہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکے۔ اس نے چند قریبی سکولوں میں جا کر اپنے بُنے ہوئے سویٹر اور سکارف کے نمونے دکھا ئے۔ سکول کی انتظامیہ نے اس کے نمونوں کو سراہا اور اسے سکول یونیفارم کے لئے 200 سویٹر اور سکارف بنانے کا دیا۔ یہ اس کی زندگی میں خوشی اور حقیقی جوش کا لمحہ تھا لیکن ساری خوشی اور طاقت سے قطع نظر صوفیہ کو محسوس ہوا کہ آرڈر پورا کرنے کے لئے اسے ایک ہیلپر کی ضرورت ہے۔
2006 میں صوفیہ دوبارہ قرضہ لینے خوشحالی مائیکرو فنانس بینک لمیٹڈ گئی۔ قرضہ منظور ہونے کے بعد صوفیہ نے دوسری مشین لی اور کام کے لئے دو اور ملازم رکھ لیے۔ اس سے اس پر کام کا بوجھ کم ہوا اور اسے مزید آرڈر لینے کا موقع ملا۔ کاروباری سمجھ بوجھ کی وجہ سے اس مرتبہ صوفیہ نے لاہور سے خام مال خریدا جس سے اسے معیاری مال سستے داموں مل گیا۔ اس سے صوفیہ کا کاروبار وسیع ہوا اور اس نے کاسمیٹکس کے کاروبار کو بڑھانے اور ایک نیا (کھلونوں کی دوکان ) کاروبار شروع کرنے کے لئے اپنے شوہر کی مالی معاونت بھی جاری رکھی۔ اب اس کی آمدنی 1200 روپے ماہانہ ہو گئی تھی۔
صوفیہ کی جدوجہد اور انتھک کوششوں کا اس کے کاروبار پر خاطر خواہ اثر ہوا اور اس کی محنت رنگ لائی۔ اپنی آمدنی بڑھانے اور آنے والے لاتعداد آرڈر قبول کرنے کی گنجائش پیدا کرنے کے لئے صوفیہ نے ایک اور قرضے کی درخواست دی کیونکہ اپنے خوابوں کی تعبیر اور نئے کاروباری آرڈر قبول کرنے کے لیے اسے دو اور نٹنگ مشینیں خریدنے اور مزید ملازم رکھنے کی ضرورت تھی۔
آج صوفیہ اونی گارمنٹس کا ذاتی آوٹ لیٹ چلاتی ہے جو اس کی خود اعتمادی، ذہانت اور مہارت کے ساتھ ساتھ چھوٹے قرضے کی صورت میں خوشحالی بینک کی چھوٹی سی مدد کا نتیجہ ہے۔ اب اس فیکٹری کا ماہانہ منافع 14000 سے 16000 روپے ہے۔ صوفیہ اپنے کاروبار کو بڑھانے کے منصوبے بناتی رہتی ہے۔ وہ ایک نٹنگ سینٹر قائم کرنا چاہتی ہے جہاں سے وہ اپنے کاروبار کو دوسرے شہروں تک پھیلا کر اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکے۔ صوفیہ مشینوں میں ڈیزائن کارڈ استعمال کر کے نئے ڈیزائنوں کی مختلف قسم کی معیاری مصنوعات متعارف کروانے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے صوفیہ کے کاروبار میں دلکشی پیدا ہو گی اور یہ زیادہ وسیع مارکیٹ تک پھیل سکے گا۔
صوفیہ کی داستان واقعی قابل تقلید ہے. اس نے صفر سے ابتدا کی اورنئی بلندیوں کو چھوا۔ اس کا عزم اور قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ رنگ لایا اور اس کے جرات مندانہ اقدامات اور عزم نے حقيقتاً اس کی زندگی بدل دی۔ اپنے کاروبار کے ذریعے صوفیہ نے اپنا میعار زندگی بہتر کیا اور اپنے پڑوسیوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا کئے۔ آج وہ اپنا کاروبار چلانے اور پھیلانے کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کے کاروبار میں بھی معاونت بھی کر رہی ہے۔ اس کے بچے جو کبھی ایک وقت کے کھانے کے لیے ترستے تھے آج بہترین سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے غیرمتزلزل یقین نے اسے زندگی کے تلخ حقائق اور ناقابل بیان مخالف حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیا۔
اس کی مسلسل جدوجہد، غیر متزلزل یقین، خود اعتمادی اور قائدانہ خصوصیات حیران کن ہیں۔ معاشرے اور معیشت کے لئے صوفیہ کے کام کو تسلیم کرتے ہوئے حال ہی میں اسے سٹی پی پی اے ایف ایوارڈز 2008 میں نیشنل رنر اپ بیسٹ فیمیل انٹرپرنیور کے لیے منتخب کیا گیا۔ اسکے علاوہ وزیراعظم کے مشیر برائے فنانس، ریونیو، شماریات اور اکنامک افئیرز شوکت ترین کی طرف سے صوفیہ کو ایک لاکھ تیس ہزار روپے کا کیش انعام بھی دیا گیا ۔