Submitted by گمنام (غیر مصدقہ) on Mon, 09/13/2021 - 23:41
ساجن ۔ تھر
ساجن ۔ تھر

وہ قدم جس نے اسے اپنے خاندان کے روشن اور بہتر مستقبل کی تلاش میں زندگی کے مشکل اور پیچیدہ راستوں سے گزار کر انتہائی غریبی کے حالات سے آزادی فراہم کی. ساجن کی پیدائش ایک غریب گھرانے میں ہوئی تھی جہاں اتنے وسائل نہ تھے کہ ساجن کو سکول بھیجا جا سکے اور جہاں ایک مایوس کن مستقبل اس کا منتظر تھا۔ تاہم ساجن نے ایک مضبوط اور پرعزم انسان ہونے کے ناتے امید کا دامن نہیں چھوڑا زندگی کی مشکلات پر قابو پانے کے لیے سخت محنت جاری رکھی۔ اس کا مقصد اپنی برادری کے لوگوں کے لیے مثالی کردار ادا کرنا تھا جو روزمرہ زندگی کے مسائل میں کھو چکے تھے۔

ساجن بھیڑ بکریوں کی افزائش کا کاروبار کرتا تھا اور انہیں مقامی لائیو سٹاک مارکیٹ میں فروخت کرتا تھا۔ اگر چہ ساجن دن رات کام کرتا تھا پھر بھی اس کی آمدنی زندگی کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ وہ لائیو سٹاک کے مقامی ڈیلرز سے اس خوف سے مول تول نہیں کرتا تھا کہ کہیں وہ اپنی موجودہ آمدنی سے بھی محروم نہ ہو جائے۔ لیکن پھر بھی ساجن پرامید تھا اور اپنی مالی حالت بہتر بنانے کے منصوبے بناتا رہتا تھا ۔ وہ ایسے وسائل اور ذرائع کی تلاش میں تھا جن سے وہ بڑے پیمانے پر مویشیوں کی افزائش کا کاروبار شروع کر سکے جس میں بڑے جانور جیسے گائے اور بھینسیں بھی شامل ہوں۔ اس کا ارادہ اسے مطلوبہ کاروبار شروع کرنے کے لیے قرض کے حصول کے لیے خوشحالی مائیکرو فنانس بینک لے گیا۔ اپنے بزرگوں کی رضامندی کے بعد ساجن نے 2005 میں اشد ضروری مدد کے لیے خوشحالی بینک کا دروازہ کھٹکٹانے کا فیصلہ کیا۔ قرض کی رقم سے ساجن نے افزائش نسل کے لیے اعلی میعارکے ایک دو بڑے مویشی خریدے۔ اس وجہ سے ساجن بہتر قیمت کے لیے خریداروں سے مول تول کرنے کے قابل ہو گیا جس کے نتیجے میں اس کی آمدنی چھ ہزار روپے سے بڑھ کر گیارہ ہزار روپے ماہانہ ہوگئی۔

زندگی بدلنے کی طاقت کے احساس نے اس کے کاروبار میں معجزے دکھائے۔ اب وہ اپنے کاروبار کو مزید پھیلانا چاہتا تھا اور یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ کیا کچھ حاصل کر سکتا ہے اپنی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہتا تھا۔ ساجن کو معلوم تھا کہ بڑی لائیو سٹاک مارکیٹیں کراچی اور حیدر آباد جیسے بڑے شہروں میں ہیں اور اگر وہ اپنے مویشی وہاں لے جا کر بیچے تو اچھی قیمت حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن جانوروں کو وہاں لے جانے کے اخراجات بہت زیادہ تھے اور اس کے لیے فائدہ مند نہیں تھے۔ اس کے ذہن میں ایک شاندار خیال آیا کہ چھوٹے پیمانے پر لائیو سٹاک کا کام کرنے والوں کو آمادہ کیا جائے کہ وہ مل کر وقتا فوقتا اپنے مویشی کراچی لے جایا کریں اور آمدورفت کا خرچ آپس میں بانٹ لیا کریں۔ اس طریقے سے ساجن کو بہت فائدہ ہوا اور اس نے اپنے مویشیوں کی فروخت سے پہلے سے کہیں بہتر منافع کمایا۔

آج ساجن اور اس کے خاندان کی زندگی میں ایک خوشگوار موڑ آیا ہے کیونکہ ماضی میں زندگی کے بے پایاں مصائب کا سامنا کرنے والا شخص آج اچھی آمدنی حاصل کر رہا ہے اور بچوں کی شادیوں اور تعلیم سمیت ان کے تمام اخراجات اٹھا رہا ہے۔ ساجن نے اس وقت پانچویں مرتبہ قرض لیا ہے اور اس کی آمدنی بڑھ کر چوبیس ہزار روپے ماہانہ ہو چکی ہے. اور اب وہ اپنے مویشیوں کواعلی معیار کا سبز چارہ کھلا سکتا ہے جس سے انہیں بہتر غذائیت ملتی ہے اور وہ صحتمند رہتے ہیں۔ آج وہ نہ صرف اپنے لئے کماتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی روزگار فراہم کر رہا ہے ۔ اس کے حالات نے اسے توڑنے کی بجائے خود اعتماد اور خود مختار بنایا ہے جو معاشرے میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔ ساجن اپنے کاروبار کے لیے نئی منصوبہ بندی کرتا رہتا ہےاور ایک فارم ہاؤس بنا کر وہاں سے دودھ بیچنے کے کام کے ذریعے اسے وسعت دینے کا خواہشمند ہے۔ اسے تخلیقی خیالات سوجھتے رہتے ہیں اور وہ اپنی برادری کے لوگوں کو اپنے کاروبار میں شامل کر کے خود مختار بنانے کے لیے تمام نئے مواقعوں سے فائدہ اٹھاتا ہے. حال ہی میں سٹی پی پی اے ایف ایوارڈز 2011 میں ساجن کی خدمات کو تسلیم کیا گیا جہاں اسے ساتویں سٹی پی پی اے ایف ایوارڈز کے لیے سندھ کے مقامی فاتح کے طور پر منتخب کیا گیا جو اس کی سخت محنت کا واضح ثبوت ہے۔