فریحہ بیوٹی پارلر میں آتی جاتی خواتین کے درمیان مسرت بخاری بیحد مطمئن دکھائی دیتی تھی۔ لیکن پانچ سال قبل اس کے مالی حالات ایسے نہ تھے۔ پرانے لاہور کے مضافات میں فریحہ بیوٹی پارلر چلانے والی مسرت بی بی کے پاس اپنا بیوٹی سیلون کھولنے کا خواب پورا کرنے کے لئے مہارت تو تھی لیکن ذرائع نہیں تھے اور ریلوے میں ملازمت کرنے والے اس کے شوہر کی محدود تنخواہ میں اس کی تین بیٹیوں کا نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنا محال تھا۔
لیکن یہ مشکلات مسرت بی بی کا راستہ نہیں روک سکیں۔ خاندان کی تنقید اور حوصلہ شکنی کے باوجود اس نے جرأت سے اپنی مہارت کو استعمال کرنے کے لئے پہلا قدم اٹھایا. اپنی کامیابی میں خوشحالی مائیکرو فنانس بینک کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے مسرت بی بی نہ صرف اپنا کاروبار شروع کرنے اور اپنی بیٹیوں کی نجی اسکولوں میں تعلیم کے لئے رقم حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے بلکہ اس نے آمدنی کے ایک اور ذریعے یعنی رکشہ کے لئے بھی رقم فراہم کی ہے جسے اس کا شوہر وہ جزوقتی طور پرچلاتا ہے۔
نہایت پراعتماد اور مطمئن مسرت بی بی کا کہنا ہے کہ میرے شوہر کی تنخواہ اور رکشے کی آمدنی کے علاوہ میں 20 سے 25 ہزار روپے کے ساتھ ساتھ ٹریننگ فیس بھی کماتی ہوں جو میں ٹریننگ لینے والی طالبات سے وصول کرتی ہوں۔ میں اپنے بچوں کے اسکول کا اخراجات اٹھا رہی ہوں اور اپنے شوہر کے لئے قسطوں پر خریدے ہوئے رکشے کی قسطیں بھی ادا کر رہی ہوں. اس وقت اس کا چوتھا قرضہ چل رہا ہے، لیکن مسرت بی بی کے خواب یہاں ختم نہیں ہوتے وہ مزید بچت اور قرض کے ذریعے اپنے کاروبار کو بڑھانے اور اپنی بیٹیوں کی شادیاں کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔