وہ تکالیف جن سے یہ خواتین ہر روز گزرتی ہیں رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہیں ناقابل تصور ہیں. وہ جس طریقے سے اپنی زندگی کے معاملات چلاتی ہیں جو قابل ستائش اور قابل قدر ہے. ایسی ہی ایک کہانی 60 سالہ غلام زیتون کی ہے جس نے اپنے خاندان کے لئے ہیرو کا کردار ادا کیا۔ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح اور کینسر کے مریض شوہر کے ساتھ چار بچوں کی پرورش کسی کا بھی حوصلہ پست کرنے اور زندگی سے ہار مان لینے کے لئے کافی ہے. لیکن زیتون کا معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ اس نے مشکلات کا مقابلہ کرنے اور کسی پر انحصار کیے بغیر خود ان مسائل کا حل ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا تھا۔ زیتون کے پاس ایک ہنر تھا اور اسے معلوم تھا کہ وہ اسے استعمال کر کے انپے خاندان کی کفالت کے لئے خاطرخواہ آمدنی حاصل کر سکتی ہے. غلام زیتون کو سرمایے کی ضرورت تھی کیونکہ اس نے اپنا فرنیچر بنانے کا ہنر اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ آس پاس سے معلومات حاصل کرنے پر زیتون کو خوشحالی مائیکرو فنانس بینک لون سکیم کے بارے میں معلوم ہوا اوراس نے قرضے کے لئے درخواست دے دی۔ زیتون کو فورا قرضہ مل گیا اور اس نے بھی فورا کام شروع کر دیا اور اپنے کاروباری منصوبے بنانے شروع کر دیئے۔ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے پرعزم لیکن بیمار شوہر سے زیادہ دیر دور نہ رہ سکنے کی وجہ سے اس نے گھر کے اندر ہی ایک کمرے کو ورکشاپ میں بدل دیا جہاں اس نے آرٹ کے بہترین نمونے بنانا شروع کر دیے۔
غلام زیتون نے مارکیٹ میں جگہ بنانے کے لیے اعلی معیار کا فرنیچر بنانے کے لیے درکار سامان خریدنے سے ابتداء کی۔ سب کچھ سیٹ کرنے کے بعد اس نے شہر کے اندر اور باہر فرنیچر ڈیلرز سے روابط قائم کرنا شروع کیے۔ ڈیلرز کے اعتماد پر پورا اترنے کے لئے زیتون کو کافی وقت لگا لیکن آخرکار وہ چند آرڈر لینے میں کامیاب ہو گئی۔ سخت محنت اور صارفین کے اچھے ردعمل کے بعد اس نے راولپنڈی کی بجائے چینیوٹ اور فیصل آباد سے سستے داموں خام مال لینا شروع کر دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کا کام بڑھ گیا اور اس مقام پر پہنچ گیا جہاں اس کے لیے اکیلے کاروبار سمبھالنا مشکل ہو گیا۔ پھر زیتون نے فیصلہ کیا کہ وہ اس پوزیشن میں ہے کہ آڈرز بڑھا کر اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتی ہے کیونکہ اب وہ اتنا کما رہی تھی کہ اپنی مدد کے لیے چار ملازمین رکھ کر زیادہ منافع اور آمدنی حاصل کر سکتی تھی۔
زیتون اور اس کے خاندان کی زندگی نے ایک اہم موڑ لیا ہے کیونکہ کبھی دوسروں پر انحصار کرنے والی گھر تک محدود ماں آج اچھی آمدنی حاصل کر رہی ہے اور اپنے 4 بچوں کو اچھی تعلیم دے رہی ہے جو کبھی اس کی دسترس سے باہر تھی۔ زیتون کے دو بچے آج خوش وخرم شادی شدہ زندگی گزار رہے ہیں۔
غلام زیتون ہم سب کے لیے مثال ہے۔ وہ اپنی قسمت خود بنانے والی عورت ہے جس کے پاس کبھی آمدنی اور خاندان کی کفالت کا کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن اس نے تمام مشکل اور نامساعد حالات کا کامیابی سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ غلام زیتون نے اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے سخت محنت کی ہے۔ اچھی آمدنی حاصل کرنے کے علاوہ اس نے اپنے لئے ایک رہائشی پلاٹ اور ایک بیٹے کے لئے موٹر سائیکل بھی خریدی ہے۔ اب وہ راولپنڈی میں بیٹے کے لئے دوکان کھول کر اپنے کاروبار کو مزید وسعت دینا چاہتی ہے جس سے آرڈرز کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گا۔
غلام زیتون کے حالات نے اسے کمزور کرنے کی بجائے ایک مضبوط اور پراعتماد شخصیت بنایا ہے جو جانتی ہے کہ وہ بھی معاشرے میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہے۔ غلام زیتون جیسے پس منظر سے تعلق رکھنے والی عورت کو باہر نکلنے اور حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تھوڑا سا عزم، خودمختاری اور معاونت دیرپا اثرات چھوڑ سکتی ہے جیسا کہ غلام زیتون کی زندگی سے واضح ہے۔