اگر چہ زمین اور جدید زرعی مشینری کی ملکیت چند پاکستانیوں کے ہاتھ میں ہے لیکن پھر بھی اس شعبے نے کاشتکاروں اور دیگر افراد کے لیے روزگار کے بہت سے یکساں مواقع پیدا کیے ہیں۔ پنجاب کو زرعی انڈسٹری کا ہیڈ کوارٹر سمجھا جاتا ہے جس کے بعد خیبر پختونخوا اور پھر سندھ کا نمبر آتا ہے۔ جبکہ بنجر زمینوں، شدید گرم موسم اور پانی کی قلت کی وجہ سے بلوچستان اس دوڑ میں سب سے پیچھے ہے۔
عیداں بلوچستان میں ڈیرہ مراد جمالی کا رہائشی تھا۔ اس نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی اور چھوٹی عمر میں ہی اسکے کندھوں پر خاندان کو سہارا دینے کی ذمہ داری آن پڑی۔ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے عیداں نے دل چھوٹا نہ کیا اور اس نے عیداں کو اپنے خاندان کے مستقبل کے لئے روزگار کے مواقع تلاش کرنے کی تحریک دی. لہٰذا اس نے اپنے چھوٹے سے گاؤں گوٹھ حاجی عبد الرزاق عمرانی میں ایک زرعی کاروبار شروع کیا۔
عیداں نے کئی سال تک اپنے کاروبار پر سرمایہ اور وقت صرف کیا۔ اس کاروبار سے منافع نہ ہونے کے برابر تھا جس کی وجہ سے اس کا خاندان غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔ عیداں نے اپنے کاروبار میں مزید سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا۔ اسے یقین تھا کہ مزید سرمایہ کاری سے پیداوار کا معیار اور مقدار دونوں بہتر ہو جائیں گے جس سے زیادہ منافع حاصل ہو گا۔ کاروبار میں بہتری کے بغیر عیداں اپنے خاندان کا معیار زندگی بہتر نہیں کر سکتا تھا لہٰذا اس نے خوشحالی مائیکرو فنانس بینک میں قرضے کے لیے درخواست دے دی۔
عیداں کے عزم، سخت محنت، لگن اور خوشحالی قرض نے اپنے خاندان کو غربت سے نکلنے میں اس کی مدد کی۔ قرض کی رقم سے اس نے اپنے کمزور کاروبار کو دوبارہ منظم کیا اور اب وہ 200000 روپے سالانہ سے زائد کما رہا ہے۔ عیداں کی انتھک کوششوں اور بروقت قرض لینے کے فیصلے کے نتیجے میں اس کے زرعی کاروبار کو خاطر خواہ ترقی ملی اور اب وہ اپنی برادری میں ایک مثال بن گیا ہے۔
عیداں اب بھی اپنے زرعی کاروبار کو بڑھانے کے لیے مسلسل کام کر رہا ہے۔ برادری، ملنے جلنے والوں اور اپنے خاندان میں اس کی عزت ہے اور اب وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے سکول بھیجنے اور ان کا مستقبل محفوظ کرنے کے قابل ہو چکا ہے۔
پاکستان میں مائیکرو فنانس بینکوں نے عیداں جیسے کئی لوگوں کو غربت سے نکال کر خودمختار بنایا ہے۔ خوشحالی مائیکرو فنانس بینک ایسے لوگوں کو کاروبار کے ذریعے روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے جو اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔